Skip to content

The Poet Place Posts

Featured Post

دلِ شکستہ

دلِ شکستہ سے یُوں جا رہی ہے اُن کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹُوٹے ہُوئے مکاں سے گریز

خُدا کی شان! تجھے یُوں مری فُغاں سے گریز
کہ جس طرح ،کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز

جہاں وہ چاہیں قمؔر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز

Leave a Comment

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایaتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خاں مومن

Leave a Comment

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام

اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام
بہار ، پیڑ ، ہوا ، رنگ ، پھول ، بیل ، تمام

ابھی تو دل بڑا سینے میں رعب جھاڑتا ہے
اِدھر یہ دھڑکنیں بگڑیں اُدھر یہ کھیل تمام

وہ جن فضاؤں میں لیتا تھا سانس میں بھی وہیں
اس اشتراک سے قائم تھا تال میل تمام

تجھے ہی شوق تھا ہر تجربہ کیا جائے
سو اب یہ ہجر کی وحشت بدن پہ جھیل تمام

یہ زندگی مجھے سارے سبق سکھاتی رہی
میں ایک پاس ہوئی امتحاں میں ، فیل ، تمام

نشانہ باندھنے والو ، خدا کا خوف کرو
اڑا بھی سکتی ہے پنچھی مِرے ، غلیل تمام

کومل جوئیہ

Leave a Comment

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا

سایہ سمجھا ہمیں شجر جانا
یہاں کس نے ہمیں بشر جانا

ہم کہ چپ کو تھے اک ہنر جانے
سب نے کم عقل ، بے خبر جانا

اک سفر ہے یہ زندگی لیکن
کون سمجھا مگر کدھر جانا

راہ ملتے ہی اپنی راہ گیا
یہاں جس جس کو ہمسفر جانا

کیا خرابی ہے میرا ہونے میں
تم کو آتا تو ہے مکر جانا

آنکھ اندھی ہو، کان بہرے ہوں
اس کو کہتے ہیں دل کا بھر جانا

ایسا سیلاب یہ محبت ہے
جس نے سیکھا نہیں اتر جانا

گل ہو، خوشبو ہو یا محبت ہو
سب کا انجام ہے، بکھر جانا

درد، وحشت ، اندھیرا ، دشت، خزاں
میرے دل کو سبھی نے گھر جانا

شبِ غم سے ہر ایک شب نے کہا
آج آئے بنا گزر جانا

ہر تعلق سراب ہے ابرک
جو نہ بھٹکا وہ کب مگر جانا

اتباف ابرک

Leave a Comment

دلِ گمشدہ

دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
کسی خشک خاک کے ڈھیر پر
یا کسی مکاں کی منڈیر پر
دلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا
جہاں لوگ ہوں ، اُسے چھوڑ کر
کسی راہ پر ، کسی موڑ پر
دلِ گمشدہ ! کبھی مِل ذرا
مجھے وقت دے ، میری بات سُن
میری حالتوں کو تو دیکھ لے
مجھے اپنا حال بتا کبھی
کبھی پاس آ ! کبھی مِل سہی
میرا حال پوچھ ! بتا مجھے
میرے کس گناہ کی سزا ھے یہ…؟
تُو جنون ساز بھی خود بنا
میری وجہِ عشق یقیں تیرا
مِلا یار بھی تو ، ترے سبب
وہ گیا تو ، تُو بھی چلا گیا؟؟؟
دِلِ گمشدہ؟ یہ وفا ھے کیا؟
اِسے کس ادا میں لکھوں بتا؟
اِسے قسمتوں کا ثمر لکھوں؟
یا لکھوں میں اِس کو دغا، سزا؟
!دِلِ گمشدہ ! کبھی مل ذرا

Leave a Comment

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے

واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے

لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق
بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے

شبنم کی طرح پھولوں پہ رو اور چمن سے چل
اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے

ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے

سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے

شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے

واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبالؔ کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

Leave a Comment

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں

دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں

آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں! جاناں !

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں

ہم، کہ روٹھی ہوئی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں

Leave a Comment

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے​

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے​
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے​

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح​
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے​

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے​
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے​

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا​
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے​

شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس​
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے​

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن​
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

Leave a Comment

یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں

یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم نہ محمد نہ مسیح
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سنتا ہی نہیں اُس کو پکارے جائیں
باپ لرزاں ہے کہ پہنچی نہیں بارات اب تک
اور ہم جولیاں دلہن کو سنوارے جائیں
ہم کہ نادان جواری ہیں سبھی جانتے ہیں
دل کی بازی ہو تو جی جان سے ہارے جائیں
تج دیا تم نے در یار بھی اکتا کے فرازؔ
اب کہاں ڈھونڈھنے غم خوار تمہارے جائیں
احمد فراز

Leave a Comment

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے

کتنی رنگیں ہے فضا کتنی حسیں دنیا ہے
کتنا سرشار ہے ذوقِ چمن آرائی آج
اس سلیقے سے سجائی گئی بزمِ گیتی
تو بھی دیوارِ اجنتا سے اتر آئی آج

رونمائی کی یہ ساعت یہ تہی دستئ شوق
نہ چرا سکتا ہوں آنکھیں نہ ملا سکتا ہوں
پیار سوغات، وفا نذر، محبت تحفہ
یہی دولت ترے قدموں پہ لٹا سکتا ہوں

کب سے تخئیل میں لرزاں تھا یہ نازک پیکر
کب سے خوابوں میں مچلتی تھی جوانی تیری
میرے افسانے کا عنوان بنی جاتی ہے
ڈھل کے سانچے میں حقیقت کے کہانی تیری

مرحلے جھیل کے نکھرا ہے مذاقِ تخلیق
سعئ پیہم نے دئے ہیں یہ خد و خال تجھے
زندگی چلتی رہی کانٹوں پہ، انگاروں پر
جب ملی اتنی حسیں، اتنی سُبُک چال تجھے

تیرے قامت میں ہے انساں کی بلندی کا وقار
دخترِ شہر ہے، تہذیب کا شہکار ہے تو
اب نہ جھپکے گی پلک، اب نہ ہٹیں گی نظریں
حسن کا میرے لئے آخری معیار ہے تو

یہ ترا پیکرِ سیمیں، یہ گلابی ساری
دستِ محنت نے شفق بن کے اڑھادی تجھ کو
جس سے محروم ہے فطرت کا جمالِ رنگیں
تربیت نے وہ لطافت بھی سِکھا دی تجھ کو

آگہی نے تری باتوں میں کھلائیں کلیاں
علم نے شکّریں لہجے میں نچوڑے انگور
دل ربائی کا یہ انداز کسے آتا تھا
تو ہے جس سانس میں نزدیک اسی سانس میں دور

یہ لطافت، یہ نزاکت، یہ حیا، یہ شوخی
سو دیے جلتے ہیں امڈی ہوئی ظلمت کے خلاف
لبِ شاداب پہ چھلکی ہوئی گلنار ہنسی
اک بغاوت ہے یہ آئینِ جراحت کے خلاف

حوصلے جاگ اٹھے، سوزِ یقیں جاگ اٹھا
نگہِ ناز کے بے نام اشاروں کو سلام
تو جہاں رہتی ہے اس ارضِ حسیں پر سجدہ
جن میں تو ملتی ہے ان راہ گزاروں کو سلام

آ، قریب آ، کہ یہ جُوڑا میں پریشاں کر دوں
تشنہ کامی کو گھٹاؤں کا پیام آ جائے
جس کے ماتھے سے ابھرتی ہیں ہزاروں صبحیں
مری دنیا میں بھی ایسی کوئی شام آ جائے

Leave a Comment

ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ

ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺳﺨﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺣﺮﻑ ﺩﺷﻨﺎﻡ
ﺑﮯ ﻣﮩﺮ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ
ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﻧﻤﯽ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ
ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﮨﻤﻮﺍﺭﯼٔ ﮨﺮ ﻧﻔﺲ ﺳﻼﻣﺖ
ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﺎﻣﺎﻟﯽٔ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ
ﮐﮩﻨﮯ ﮐﻮ ﭼﺮﺍﻍ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ
ﻣﻌﺒﻮﺩ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺳﺮﺥ ﺭﻭ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮕﮧ ﺩﺍﺭ
ﺍﺱ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﺭﻻﯾﺎ
ﺍﺱ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﺑﮯ ﻭﺿﻮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮐﻮﭺ ﮨﻮﮔﺎ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻧﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ

Leave a Comment
%d bloggers like this: